Pages

Tuesday, 31 January 2012

خواب ِخوش رنگ! مری چشم کو مت چھوڑ



کوئی بھی فرق نہ منظر میں پڑا میرے بعد
شام کا چہرہ ہی اترا تھا ذرا میرے بعد

لوگ مصروف رہے شہر رہا پر رونق
صرف خاموشی رہی نوحہ سرا میرے بعد

خواب ِخوش رنگ! مری چشم کو مت چھوڑ ، تجھے
کون دیکھے گا مری طرح بھلا میرے بعد

اشک تھے آنکھ میں یا پھر کوئی حیرانی تھی
اس طرح شہر میں وہ پھرتا رہا میرے بعد

تجھ پہ کیا گزرے گی اے ہجر کی بجھتی ہوئی شام
جب بھی اس بام پر اک دیپ جلا میرے بعد

آئنہ توڑ کے دیکھوں، کوئی مجھ سا تو نہیں
کون پھر ہو کے گیا چہرہ نما میرے بعد

اس طرح پیچھے سے اک موجۂ خوشبو آیا
جیسے اس شاخ پر اک پھول کھلا میرے بعد

پھر کسی شاخ سے الجھی نہ ستوں سے لپٹی
دم بخود بیٹھی رہی باد ِصبا میرے بعد

گیلے رستے پہ یہ قدموں کے نشاں کیسے ہیں
مجھ سے پہلے کوئی آیا ۔۔۔ کہ گیا ۔۔۔ میرے بعد

کام آئے وہ پرندوں سے مراسم اک دن
میرا نغمہ تھا جو دنیا نے سنا میرے بعد

شاعروں نے کبھی افسانہ نگاروں نے لکھی
میری گمنام تمنا کی کتھا میرے بعد

میں نے اس عکس کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
آئنہ سوچ کے حیران ہوا ۔۔۔۔ میرے بعد

کون پہنے گا یہ کانٹوں بھرا پیراہن ِدل
کون اوڑھے گا مرے غم کی ردا میرے بعد

اب اگر آ بھی گئی دھوپ تو کیا دیکھے گی
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا میرے بعد

زرد پتوں کی اداسی سے یہی لگتا ہے
باغ میں موسم ِگل بھی نہ رہا میرے بعد

اپنی تخلیق پہ حیراں ہو کہ نازاں ہو، یہی
سوچتا رہ گیا پھر میرا خدا میرے بعد

یہ تو طے ہے کہ مری روح نہیں مر سکتی
کیسا پہنے گی بھلا جسم نیا میرے بعد

No comments:

Post a Comment