جذبات بہہ رہے تھے روانی غضب کی تھی
راجہ بھی لاجواب تھا صحراء عشق کا
لیکن دیار حسن کی رانی غضب کی تھی
دیکھی ہیں شہر بھر میں بڑی کافر جوانیاں
لیکن جو اس پہ آئ جوانی غضب کی تھی
اس کا بدن تھا میر کا مصرع بنا ہوا
ہم میں بھی جستجوئے معانی غضب کی تھی
ہونٹوں پہ دھر گئی تھی قیامت کی تشنگی
اسکی وہ الوداعی نشانی غضب کی تھی
ہم لوگ تو ازل سے ہیں وارفتہء سکوت
پھر چپ جو تھی بھی اس کی زبانی غضب کی تھی
عطا تراب
No comments:
Post a Comment