Pages

Monday, 13 February 2012

اے شام اسے بتانا



اے شام اسے بتانا
سراب اس کی جستجو کے
نصاب اس کی آرزو کے
چہار سو بکھرے ہوئے ہیں
کسک رتوں کی داستانیں
ہر لفظ میں بند ہیں
میری آنکھیں سائے کی مانند چپ ہیں
مگر اِن میں بسا انتظار
اب بھی زندہ ہے
اے شام اسے بتانا
اسے اپنے اندر زندہ رکھتے رکھتے
میرے سارے جذبے جھلس گئے ہیں
پاسِ وفا کے بھرم میں
میرا سکوں جل چکا ہے
میری آنکھوں میں بس
راکھ ہی راکھ ہے
جن میں ہر لمحہ
اس کی محبت کی چنگاری 
بھڑکتی رہتی ہے
اے شام اسے بتانا
پہلے بھی پانیوں میں رہتے تھے
اب بھی سمندر میں گھر بنایا ہے
ڈوبتے
 سورج کی زرد روشنی سے
خود کو اضطراب کے سنگھار سے سجایا ہے
ڈھلتی شام سے لے کر
ڈھلتی شام تک
لہو نے اسی کا ریاض کیا ہے
جس سے
میری خلوتیں، میری جلوتیں
ہر گھڑی آباد ہیں
اے شام اس سے پوچھنا
کیا میری ساری راتیں
فراق کی رت میں بسر ہوں گی؟
اور مجھے بتانا کہ
میں خود کو کیسے سمجھاں
کہ ادھوری خواہش
ہونٹوں کو خشک
اور آنکھوں کو نم رکھتی ہے
اے شام اسے بتانا
کہ اِس برباد ، گیلے نگر میں
میں ہی نہیں
وہ بھی رہتا ہے
اس سے کہنا
کہ میرے اندر وہ اس طرح ہے
جس طرح عشا میں وِتر
میرے ساتھ ساتھ بھی 
مجھ سے جدا بھی
اے شام اسے بتانا۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment