Pages

Tuesday, 17 April 2012

دل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی




گزرے ہوئے طویل زمانے کے بعد بھی
دل میں رہا وہ چھوڑ کے جانے کے بعد بھی


پہلو میں رہ کے دل نے دیا ہے بہت فریب
رکھا ہے اس کو یاد بھلانے کے بعد بھی


وہ حسن ہے کسی میں نہیں تاب دید کی
پنہاں ہے وہ نقاب اٹھانے کے بعد بھی


قربت کے بعد اور بھی قربت کی ہے تلاش
دل مطمئں نہیں تیرے آنے کے بعد بھی


گو تو یہاں نہیں ہے مگر تو یہیں پہ ہے
تیرا ہی ذکر ہے تیرے جانے کے بعد بھی


ساری زمیں کا نور بھی سورج نہ بن سکا
شب ہی رہی چراغ جلانے کے بعد بھی


نارِ حسد نے دل کو جلایا ہے یوں عدیم
یہ تو نشاں رہے گا مٹانے کے بعد بھی


لگتا ہے کچھ کہا ہی نہیں ہے اسے عدیم
دل کا تمام حال سنانے کے بعد بھی

No comments:

Post a Comment