Pages

Wednesday, 18 April 2012

تو میری آنکھ کا وہ آنسو ہے


تو میری آنکھ کا وہ آنسو ہے
جس نے مُبہم کئے ہیں سب منظر
جس نے نیندیں چُرا لی آنکھوں سے
جو کہ اٹکا ہوا ہے پلکوں پر
جس کے دَم سے دُھواں ہے سینے میں
جس کی آتش جلا ےء جذ بوں کو
جس کی قُربت بنی ہے اِک سُو زش
جس نے زخمی کیا ہے نظروں کو
تجھ کو احساس کب ۔۔ کہ اِس دل کے
کتنے جذبے لُٹے ہیں راہوں میں
کتنے صفحے پلٹ چکی ہوں تیرے
کتنے کانٹے چُبھے ہیں سانسوں میں
تُو میرے درد سے نہیں واقف
تیرے دل کا زِیاں ہوا ہی نہیں
میں نے چاہا پرستشوں میں تجھے
تجھ کو اِس کا گُماں ہوا ہی نہیں
تو جو ناآشنا ہے اب مجھ سے
مجھ سے کتنی کہانیاں تھیں تیری
کتنی صُبحیں کرینگی یاد مجھے
کتنی شامیں نشانیاں تھیں تیری
اب تو ایسے لگے ہے ، کہ جیسے
مجھ سے کتنی عداوتیں ہیں تیری
جتنا یکجا کروں ،، یہ بکھرینگی
ریزہ ریزہ رفاقتیں ہیں تیری
تم کو چُننے لگوں تو برسوں میں
میرے لمحے بدلنے لگتے ہیں
ہو کے مانوس میری عادت سے
میرے آنسو پگھلنے لگتے ہیں
تم سے مل کر مجھے یہ علم ہوا
کتنا نازُک وفا کا پہلو ہے
میں نے اکثر ہوا کی آہٹ میں
جس کی دستک سنی ہے وہ تو ہے
جس نے مُبہم کئے ہیں سب منظر
تو میری آنکھ کا وہ آنسو ہے


No comments:

Post a Comment