Pages

Saturday, 14 July 2012

وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے



ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے


اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے


کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے


پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے


کیا اس سے ملاقات کا امکاں بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے


آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیال خس و خاشاک بہت ہے


نادم ہے بہت تو بھی جمال اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے


No comments:

Post a Comment