Pages

Sunday, 15 July 2012

رکھو گے اسے یاد تو پھر جی نہ سکو گے


اُس دشت کو جانا ہے تو گھر بھول ہی جانا
آنگن کا وہ تنہا سا شجر بھول ہی جانا
رکھو گے اسے یاد تو پھر جی نہ سکو گے
گو کام یہ مشکل ہے مگر بھول ہی جانا
دن کاٹیں گے کس طرح سے ، کیونکر یہ کٹے رات
جنگل میں ٹھکانہ ہے تو ڈر بھول ہی جانا
اک بار کا یہ کام نہیں، کام ہے دشوار
بہتر ہے اسے بارِدگر بھول ہی جانا
اب معجزے ہوتے ہی نہیں اپنے جہاں میں
چاہت کا فسوں ،اس کا اثر بھول ہی جانا
تم لاکھ کرو جتن، کٹے گا یہ بہرطور
اس شہر کو جانا ہے تو سَر بھول ہی جانا
کل شب کو اتر آیا تھا اس دھرتی پہ چندا
اک خواب تھا بس، خواب نگر بھول ہی جانا

No comments:

Post a Comment