Pages

Monday, 3 September 2012

دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں


دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں

ترکِ محبت، ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں

دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں

سناٹا جب تنہائی کے زہر میں گھلتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں، کیسے بتائیں تمہیں

جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں

اڑتے پنچھی، ڈھلتے سائے، جاتے پل اور ہم
بیرن شام کا تھام کے دامن روز بلائیں تمہیں

دور گگن پر ہنسنے ولے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ، ہاتھ لگائیں تمہیں

درد ہماری محرومی کا تم جب جانو گے
جب کھانے آئے گی چپ کی سائیں سائیں تمہیں

رنگ برنگے گیت تمھارے ہجر میں ہاتھ آئے
پھر بھی یہ کیسے چاہیں کہ ساری عمر نہ پائیں تمہیں

پاس ہمارے آکر تم بیگانہ سے کیوں ہو؟
چاہو تو ہم پھر کچھ دوری پر چھوڑ آئیں تمہیں

انہونی کی چنتا، ہونی کا انیائے نظر
دونوں بیری ہیں جیون کے، ہم سمجھائیں تمہیں

No comments:

Post a Comment