نشانی کوئی تو اب کے سفر کی گھر لانا
تھکان پاؤں کی اور تتلیوں کے پر لانا
عجب فضا ہے جہاں سانس لے رہے ہیں ہم
گھروں کو لوٹ کے آنا تو چشم تر لانا
یہی نہ ہو کہ مسلسل وفا تھکا ڈالے
محبتوں میں نیا پن تلاش کر لانا
میں لکھ رہی ہوں کہانی تیری رفاقت کی
جو ہو سکے تو کوئی حرف معتبر لانا
سفر کے شوق میں چل تو پڑے ہو تم گھر سے
دکھوں کی گرد سے دامن نہ اپنا بھر لانا
No comments:
Post a Comment