Pages

Tuesday, 18 September 2012

نشانی کوئی تو اب کے سفر کی گھر لانا



نشانی کوئی تو اب کے سفر کی گھر لانا
تھکان پاؤں کی اور تتلیوں کے پر لانا

عجب فضا ہے جہاں سانس لے رہے ہیں ہم
گھروں کو لوٹ کے آنا تو چشم تر لانا

یہی نہ ہو کہ مسلسل وفا تھکا ڈالے
محبتوں میں نیا پن تلاش کر لانا

میں لکھ رہی ہوں کہانی تیری رفاقت کی
جو ہو سکے تو کوئی حرف معتبر لانا

سفر کے شوق میں چل تو پڑے ہو تم گھر سے
دکھوں کی گرد سے دامن نہ اپنا بھر لانا

No comments:

Post a Comment