Pages

Sunday, 30 September 2012

الوداع ثبت ہُوئی تھی جس پر ... اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں



چاند اُس دیس میں نکلا کہ نہیں
جانے وہ آج بھی سویا کہ نہیں

اے مجھے جاگتا پاتی ہُوئی رات
وہ مری نیند سے بہلا کہ نہیں

بھیڑ میں کھویا ہُوا بچہ تھا 
اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں

مجھ کو تکمیل سمجھنے والا 
اپنے معیار میں بدلا کہ نہیں

گنگناتے ہوئے لمحوں میں اُسے
دھیان میرا کبھی آیا کہ نہیں

بند کمرے میں کبھی میری طرح 
شام کے وقت وہ رویا کہ نہیں

میری خود داری برتنے والے
تیرا پندار بھی ٹوٹا کہ نہیں

الوداع ثبت ہُوئی تھی جس پر 
اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں


No comments:

Post a Comment