Pages

Thursday, 27 September 2012

میری منزل کا پتہ اس بار اپنے نام کا رکھنا



میں جس سفر میں ہوں 
اُس سفرمیں تمہیں ہمسفر
بنا سکتا نہیں
مرے قدم ایسے راستوں میں گُم ہیں
کہ میں خود اپنی منزل کا پتا 
بتا سکتا نہیں
لیکن مجھے معلوم ہے
مجھے لوٹ کر ہی آنا ہے
تو پھر یہ التجا ہے میری تم سے
جب کبھی میں گرد آلود جسم کے ساتھ
اپنی روح کو 
نامُرادیوں اور مایوسیوں کے پتھروں پر
گھسیٹا ہوا 
واپس تمہارے پاس آؤں اگر
بس تم اتنا کرنا
میرے جُھلسے ہوئے وجود کو
اپنے آنسوؤں سے تر کردینا
اور ہاتھ پکڑ کر میرا 
پھر سے وہیں کھڑا کردینا
جہاں سے میں نے پہلے 
سفر شروع کیا تھا
مگر اُس بار یہ ضرور کرنا 
میرے ہاتھ میں دیا 
اپنی شام کا رکھنا
بس اتنی التجا ہے میری
میری منزل کا پتہ 
اس بار 
اپنے نام کا رکھنا

No comments:

Post a Comment