ہم کیا کرتے کس راہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
ان رشتوں کو جو چھوٹ گئے
ان صدیوں کے یارانوں کے
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے
جس راہ چلے جس سمت گئے
یوں پاؤں لہولہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی ریت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگوائی ہے
وہ کہتے تھے، کیوں قحطِ وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پاؤں سے لہو کو دھوڈالو
یہ راتیں جب کٹ جائیں گی
سو رستے ان سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے
No comments:
Post a Comment