Pages

Wednesday, 31 October 2012

یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے


یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرے میں سمندر ہے ذرّے میں بیاباں ہے

اے پیکر ِمحبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدۂِ حیراں ہے

سو بار تیرا دامن ہاتھوں میں میرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے

یہ حُسن کی موجیں ہیں یا جوش ِتمنا ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے

اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے


No comments:

Post a Comment