یہ عشق نے دیکھا ہے یہ عقل سے پنہاں ہے
قطرے میں سمندر ہے ذرّے میں بیاباں ہے
اے پیکر ِمحبوبی میں کس سے تجھے دیکھوں
جس نے تجھے دیکھا ہے وہ دیدۂِ حیراں ہے
سو بار تیرا دامن ہاتھوں میں میرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا اپنا ہی گریباں ہے
یہ حُسن کی موجیں ہیں یا جوش ِتمنا ہے
اس شوخ کے ہونٹوں پر اک برق سی لرزاں ہے
اصغر سے ملے لیکن اصغر کو نہیں دیکھا
اشعار میں سنتے ہیں کچھ کچھ وہ نمایاں ہے
No comments:
Post a Comment