Pages

Friday, 19 October 2012

اے عشق! رگ جاں میں اتر کیوں نہیں جاتا



انہونی کوئی ہو گی یہ ڈر کیوں نہیں جاتا
قسمت کا لکھا سر سے گزر کیوں نہیں جاتا

موجود ھے اس میں تو لبوں تک بھی یہ آئے
خالی ھے اگر جام تو بھر کیوں نہیں‌جاتا

احساس کو نہ اس کی وہ شدت ہی کو سمجھیں
جو پوچھتے ھیں دل سے اتر کیوں نہیں جاتا

دستک سے تھکے ہاتھ صدا دیتا رھا میں
آنکھوں سے مری بند وہ در کیوں نہیں جاتا

ساحل پہ کھڑے میرے دعاگو کی یہ خواہش
کشتی کو لئے ساتھ بھنور کیوں نہیں جاتا

کیا بچپنا ھے میرا خیال آئے جو دل میں
دنیا کا ہر اک فرد سنور کیوں نہیں جاتا

سو بار مرے کانوں میں سرگوشی ہوئی ھے
جینا نہیں‌آتا ھے تو مر کیوں نہیں جاتا

بوباس بسے اس کی ہر اک شے میں ھے چہرہ
تم پوچھتے ہو مجھ سے میں گھر کیو
ں نہیں جاتا

ہاتھوں سے‌تیرے مرنے میں ھے اک فضیلت
اے عشق! رگ جاں میں اتر کیوں نہیں جاتا

جن رستوں کی میں خاک رہا چھانتا عامر
ان میں سے کوئی رستہ ادھر کیوں نہیں جاتا

No comments:

Post a Comment