Pages

Thursday, 4 October 2012

تہمتیں تو لگتی ہیں



تہمتیں تو لگتی ہیں

روشنی کی خواہش میں

گھر سے باہر آنے کی کُچھ سزا تو ملتی ہے

لوگ لوگ ہوتے

ان کو کیا خبر جاناں!

آپ کے اِرادوں کی خوبصورت آنکھوں میں

بسنے والے خوابوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں

دل کی گود آنگن میں پلنے والی باتوں کے

زخم کیسے ہوتے ہیں

کتنے گہرے ہوتے ہیں

کب یہ سوچ سکتے ہیں

ایسی بے گناہ آنکھیں

گھر کے کونے کھدروں میں چھُپ کے کتنا روتی ہیں

پھر بھی یہ کہانی سے

اپنی کج بیانی سے

اس قدر روانی سے داستان سنان

اور یقین کی آنکھیں

سچ کے غمزدہ دل سے لگ کے رونے لگتی ہیں

تہمتیں تو لگتی ہیں

روشنی کی خواہش میں

تہمتوں کے لگنے سے

دل سے دوست کو جاناں

اب نڈھال کیا کرنا

تہمتوں سے کیا ڈرنا

No comments:

Post a Comment