Pages

Thursday, 4 October 2012

ہجر کی تمازت سے وصَل کے الاؤ تک



کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

برف کے پگھلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

اُس نے ہنس کے دیکھا تو مُسکرا دیے ہم بھی

ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

ہجر کی تمازت سے وصَل کے الاؤ تک

لڑکیوں کے جلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

بات جیسی بے معنی بات اور کیا ہو گی

بات کے مُکرنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

زعم کِتنا کرتے ہو اِک چراغ پر اپنے

اور ہَوا کے چلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے

جب یقیں کی بانہوں پر شک کے پاؤںپڑ جائیں

چوڑیاں بِکھرنے میں دیر کِتنی لگنی ہے

No comments:

Post a Comment