Pages

Friday, 12 October 2012

دعائے آخرِ شب


تیرگی میں یا خدا! رنگ سحر بھی دے مجھے
قریہ شب سے کبھی اذن سفر بھی دے مجھے

آج بھی اترے ہیں ہونٹوں پر دعاؤں کے ہجوم
دل کی تختی پر حروف معتبر بھی دے مجھے

دے مجھے توفیق رکھوں حوصلہ ہر حال میں
آندھیوں کے سامنے دیوار و در بھی دے مجھے

سائباں تیرے کرم کا روز و شب پر ہے محیط
اس بھری دنیا میں اک چھوٹا سا گھر بھی دے مجھے

پھول سے بچوں کو دے شاداب موسم کی نوید
خشک سالی میں بہت برگ و ثمر بھی دے مجھے

زندگی رب مسلسل ہے اگر میرے خدا
آنسوؤں کو ضبط کرنے کا ہنر بھی دے مجھے

روشنی شہر دانائی سے بھر کاسہ مرا
رزم گہ میں ہوں تمیز خیرو شر بھی دے مجھے

رونے والی آنکھ میرے جسم کو کرکے عطا
آخر شب تابش قلب ونظر بھی دے مجھے

آرزو، زندہ قفس میں بھی رہی پرواز کی
اب کھلی آب و ہوا میں بال و پر بھی دے مجھے

لکھ مری قسمت میں بھی آسودہ لمحوں کا گداز
خطہ جبر مسلسل سے مفر بھی دے مجھے

میرے آنگن پر تنے ہیں دھوپ کے خیمے ہزار
سایہ نقش کف خیرالبشر بھی دے مجھے

ہموطن میرے عمل کی روشنی کے ہوں سفیر
عزم بے پایاں کے وہ شمس وقمر بھی دے مجھے

نعت کی ابجد سے بھی واقف نہیں کلک ریاض
مدحت سرکار (ص) کے لعل وگہر بھی دے مجھے


No comments:

Post a Comment