Pages

Thursday, 4 October 2012

کبھی خوشبو بھی وفا کرتی ہے



پُوچھ لو پھُول سے کیا کرتی ہے

کبھی خوشبو بھی وفا کرتی ہے

خیمۂ دل کے مقدّر کا یہاں

فیصلہ تیز ہَوا کرتی ہے

بے رُخی تیری،عنایت تیری

زخم دیتی ہے، دَوا کرتی ہے

تیری آہٹ مِری تنہائی کا

راستہ روک لیا کرتی ہے

روشنی تیرا حوالہ ٹھہرے

میری ہر سانس دُعا کرتی ہے

میری تنہائی سے خاموشی تری

شعر کہتی ہے، سُنا کرتی ہے


No comments:

Post a Comment