Pages

Saturday, 13 October 2012

زندگی اوڑھ کے بیٹھی تھی رِدائے غم


ہونٹ ہیروں سے نہ چہرہ ہے ستارے کی مثال
پھر بھی لاوے تُو کوئی دوست ہمارے کی مثال

مجھ سے کیا ڈوبنے والوں کا پتہ پوچھتے ہو؟
میں سمندر کا حوالہ، نہ کنارے کی مثال

زندگی اوڑھ کے بیٹھی تھی رِدائے غم
تیرا غم ٹانک دیا ہم نے ستارے کی مثال

عاشقی کو بھی ہوّس پیشہ تجارت جانیں
وصل ہے منافع تو ہجراں ہے خسارے کی مثال

ہم کبھی ٹوٹ کہ روئے نہ کبھی کُھل کے ہنسے
رات شبنم کی طرح صبح ستارے کی مثال

ناسپاہی کی بھی حد ہے جو یہ کہتے ہو فراز
زندگی ہم نے گزاری ہے گزارے کی مثال


No comments:

Post a Comment