Pages

Thursday, 4 October 2012

اُس کی یاد کے منظر میں اب رات گئے تک



اندیشوں کے شہر میں رہنا پڑ جائے گا
بالآخر ہر دُکھ کو سہنا پڑ جائے گا

وقت کی گردش میں آئے تو جان لیا ہے
جھُوٹی بات کو سچّی کہنا پڑ جائے گا

اُس کی یاد کے منظر میں اب رات گئے تک
آنسو بن کر آنکھ سے بہنا پڑ جائے گا

جس لہجے کی خُوشبو ہر پَل ساتھ رہی ہو
اَسے بھی اب بیگانہ کہنا پڑ جائے گا

No comments:

Post a Comment