زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پہ تان لیا
کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے کہاں کہاں نروان لیا
نقش دیئے تری آشاؤں کو رنگ دیئے ترے خوابوں کو
لیکن دیکھ ہماری حالت! وقت نے کیا تاوان لیا
اشکوں میں ہم گوند چکے تھے اس کے لمس کی خوشبو کو
موم کے پھول بنانے بیٹھے لیکن دھوپ نے آن لیا
برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گردِ سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا
وحشت دل کے لاکھ معالج چیت کے دن لمبی دوپہریں
گھر سے چلے ہم سفری کو ہم لو کا کہنا مان لیا
سورج سورج کھیل رھے تھے ساجد کل ہم اس کے ساتھ
اک اک قوس قزح سے گزرے اک اک بادل چھان لیا
No comments:
Post a Comment