Pages

Saturday, 20 October 2012

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پہ تان لیا


زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پہ تان لیا
کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے کہاں کہاں نروان لیا

نقش دیئے تری آشاؤں کو رنگ دیئے ترے خوابوں کو
لیکن دیکھ ہماری حالت! وقت نے کیا تاوان لیا

اشکوں میں ہم گوند چکے تھے اس کے لمس کی خوشبو کو
موم کے پھول بنانے بیٹھے لیکن دھوپ نے آن لیا

برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی
کچھ تو گردِ سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا

وحشت دل کے لاکھ معالج چیت کے دن لمبی دوپہریں
گھر سے چلے ہم سفری کو ہم لو کا کہنا مان لیا

سورج سورج کھیل رھے تھے ساجد کل ہم اس کے ساتھ
اک اک قوس قزح سے گزرے اک اک بادل چھان لیا


No comments:

Post a Comment