وقت کے دریا میں آؤ ایک دن
یوں بہا دیں جا چکے لمحوں کی راکھ
جیسے ان سے کوئی بھی رشتہ نہ تھا
جیسے ہم اس آگ سے گزرے نہ تھے
آئنے یادوں کے جھلمل منظروں کی اوٹ سے
ہم کو دیکھیں اور ششدر سے رہیں
کیسے چہرے ہیں جو اپنے عکس سے ملتے نہیں
آتے جاتے موسموں کی آنکھ میں حیرت سی ہو
کیسے غنچے ہیں جو فصلِ گُل میں بھی کھلتے نہیں
وقت کے صحرا میں آؤ ایک دن
یوں چُرا کر ڈوبتے تاروں سے آنکھ
اپنے اپنے راستوں کی گرد میں روپوش ہوں
جیسے ہم نے منزلوں کے خواب تک دیکھے نہ تھے
No comments:
Post a Comment