Pages

Tuesday, 27 November 2012

وقت کے دریا میں آؤ ایک دن


وقت کے دریا میں آؤ ایک دن
یوں بہا دیں جا چکے لمحوں کی راکھ
جیسے ان سے کوئی بھی رشتہ نہ تھا
جیسے ہم اس آگ سے گزرے نہ تھے


آئنے یادوں کے جھلمل منظروں کی اوٹ سے
ہم کو دیکھیں اور ششدر سے رہیں
کیسے چہرے ہیں جو اپنے عکس سے ملتے نہیں
آتے جاتے موسموں کی آنکھ میں حیرت سی ہو
کیسے غنچے ہیں جو فصلِ گُل میں بھی کھلتے نہیں


وقت کے صحرا میں آؤ ایک دن
یوں چُرا کر ڈوبتے تاروں سے آنکھ
اپنے اپنے راستوں کی گرد میں روپوش ہوں
جیسے ہم نے منزلوں کے خواب تک دیکھے نہ تھے


No comments:

Post a Comment