کُچھ ایسی اب مُصیبت پڑ گئی ہے
ہمیں تِیری ضَرورت پڑ گئی ہے
کوئی تَعویز ہو ردِ بلا کا
مُحبّت میرے پیچھے پڑ گئی ہے
میں سب سے دُور ہونا چاہتا ہوں
مُجھے اَپنی ضرورت پڑ گئی ہے
چراغ ایسے جَلائے اب کے ہم نے
ہواؤں کو مُصیبت پڑ گئی ہے
حسّن کیسے سکونِ دل ملے گا
تُمہارے پیچھے وَحشت پڑ گئی ہے
No comments:
Post a Comment