Pages

Tuesday, 20 November 2012

گرد _ ماضی ہٹا گئی بارش




رگ و پے میں سما گئی بارش
پیاس دل کی بڑھا گئی بارش

طاق _ نسیاں کی خامشی میں پھر
جل ترنگ اک بجا گئی بارش

! دیکھ نیرنگی _ تمنا ، دوست
دھوپ چاہی تھی ، آ گئی بارش

! کیا خبر ابر کے سفیروں کو
کتنی شمعیں بجھا گئی بارش

! تو کہیں بھیگتا نہ ہو تنہا
ایک دھڑکا لگا گئی بارش

بند کھڑکی کے صاف شیشوں پر
عکس تیرا بنا گئی بارش

آج مٹھی جو کھول کر دیکھا
نام تیرا مٹا گئی بارش

وقت _ رخصت تجھے نہیں معلوم
کتنے آنسو چھپا گئی بارش

قطرہ قطرہ گری مگر پھر بھی
زخم گہرا لگا گئی بارش

چشم _گریاں سے چشم_حیراں تک
اک دھنک سی بچھا گئی بارش


گنگنانے لگیں تری یادیں
تار غم کے ہلا گئی بارش

! کھل گئیں آشنایاں کیا کیا
گرد _ ماضی ہٹا گئی بارش

تیرے بے لاگ بھیگ جانے پر
اپنا مشکیزہ ڈھا گئی بارش

No comments:

Post a Comment