Pages

Tuesday, 27 November 2012

میں پھر لوٹ کے آؤں گا


جو بھی گھر سے جاتا ہے
یہ کہہ کر ہی جاتا ہے
دیکھو، مجھ کو بھول نہ جانا
میں پھر لوٹ کے آؤں گا
دل کو اچھے لگنے والے
لاکھوں تحفے لاؤں گا
نئے نئے لوگوں کی باتیں
آکر تمہیں سناؤں گا
لیکن 
آنکھیں تھک جاتی ہیں

وہ واپس نہیں آتا ہے
لوگ بہت 
ہیں اور وہ اکیلا

ان میں گم ہوجاتا ہے

No comments:

Post a Comment