یونہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے
بچھڑ کر لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے
جو آنے والے ہیں موسم انہیں شمار میں رکھ
جو دن گزر گئے ان کو گنا نہیں کرتے
نا دیکھا جان کے اس نے ! کوئی سبب ہوگا
اسی خیال سے ہم دل برا نہیں کرتے
وہ مل گیا تو کیا قصہ فراق کہیں
خوشی کے لمحوں کو یوں بے مزہ نہیں کرتے
نشاط قرب غم ہجر کے آواز مت مانگ
دعا کے نام پہ یوں بدعا نہیں کرتے
منافقت پہ جنہیں اختیار حاصل ہے
وہ عرض کرتے ہیں ، تجھ سے گلہ نہیں کرتے
ہمارے قتل پہ محسن یہ پس و پیش کیسی
ہم ایسے لوگ طلب خون بہا نہیں کرتے
No comments:
Post a Comment