Pages

Friday, 30 November 2012

وہ مل گیا تو کیا قصہ فراق کہیں


یونہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے 
بچھڑ کر لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے 

جو آنے والے ہیں موسم انہیں شمار میں رکھ 
جو دن گزر گئے ان کو گنا نہیں کرتے 

نا دیکھا جان کے اس نے ! کوئی سبب ہوگا 
اسی خیال سے ہم دل برا نہیں کرتے 

وہ مل گیا تو کیا قصہ فراق کہیں 
خوشی کے لمحوں کو یوں بے مزہ نہیں کرتے 

نشاط قرب غم ہجر کے آواز مت مانگ 
دعا کے نام پہ یوں بدعا نہیں کرتے 

منافقت پہ جنہیں اختیار حاصل ہے 
وہ عرض کرتے ہیں ، تجھ سے گلہ نہیں کرتے 

ہمارے قتل پہ محسن یہ پس و پیش کیسی 
ہم ایسے لوگ طلب خون بہا نہیں کرتے 


No comments:

Post a Comment