Pages

Tuesday, 27 November 2012

میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں


میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں
وہی گاتی ہوئی آنکھیں وہی اندازِ کلام
وہی گُلنار تبسّم سے مہکتا چہرہ
وہی خوش رنگ خرام،
نرم لہجے میں ترنّم کی وہی گُل کاری
جیسے وہ کل کی گئی آج چلی آئی ہو
جیسے سب جاگ کے کاٹی ہوئی کالی راتیں
سرد کمرے میں ٹھٹھرتی ہوئی سوچیں، یادیں
رات بھر روئی ہوئی آنکھ سے بھیگے تکیے
اور تالو سے چمٹے ہوئے کڑوے لمحے،
میرے بہکے ہوئے خوابوں کے تراشید تھے
میں نے سوچا تھا گزرتے ہوئے کڑوے لمحے
اس کے تالو سے بھی چمٹے ہونگے !
اُس کے تکیوں پہ بھی میری یادیں
اشک بن بن کہ ٹپکتی ہونگی
سرد راتوں میں سمِ تنہائی
اس کی نیندوں کو بھی کھاتا ہوگا
اس کی آنکھوں میں مگر درد کا سایہ بھی نہ تھا

جیسے وہ گزرے ہوئے وقت سے گزری ہی نہ تھی جیسے اُس نے مجھے چاہا بھی نہ تھا

مجھ کو یوں سامنے پا کر وہ ہراساں نہ ہوئی
میرے بےربط سوالوں سے پریشاں نہ ہوئی
اپنے مانس تبسّم میں ترنم بھر کر
مجھ سے چلتے ہوئے بولی " ہیلو
شاعرِ وقت کہو، کیسے ہو "
میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں


No comments:

Post a Comment