Pages

Thursday, 29 November 2012

میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہر جائی کی



انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی

کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہر جائی کی

ٹوٹ گئے سیال نگینے، پھوٹ بہے رخساروں پر
دیکھو میرا ساتھ نہ دینا بات ہے یہ رسوائی کی

وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر
وقت سے پہلے ڈوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی 

No comments:

Post a Comment