شب کو جب کبھی میں نے اپنی جستجو کی ھے
بے صدا درختوں نے تیری گفتگو کی ھے
دل کی ضد جو ٹھہری ھے اب تو اس کو پانا ھے
فکر زندگی چھوڑو بات آبرو کی ھے
پوچھ تیغ قاتل سے مقتلوں کے میلے میں
ھم نے کس کو ڈھونڈا ھے کس کی آرزو کی ھے
رات دور بیٹھی ھے اک ضعیف ماں بن کر
ھر جوان لاشے پر اک ردا لہو کی ھے
جس کو زرد کر ڈالا دھوپ کی سخاوت نے
شاید اس کلی نے بھی خواہش نمو کی ھے
اے نمازیو ٹھہرو دل کو زخم سہنے دو
کچھ لہو تو بہنے دو یہ گھڑی وضو کی ھے
جس کو عمر بھر پوجا اب اسے گنوا بیٹھے
ہم نے یہ بغاوت بھی اس کے روبرو کی ھے
اپنا جرم ثابت ھے تم سزا سنا دینا
سر کہیں سجا دینا ہر سناں عدو کی ھے
دیکھنا کہیں"محسن"کچھ نشاں نہ پڑ جائے
عکس اس کے چہرے کا،موج آبجو کی ھے
No comments:
Post a Comment