Pages

Sunday, 11 November 2012

دل کی ضد جو ٹھہری ھے اب تو اس کو پانا ھے



شب کو جب کبھی میں نے اپنی جستجو کی ھے
بے صدا درختوں نے تیری گفتگو کی ھے
دل کی ضد جو ٹھہری ھے اب تو اس کو پانا ھے
فکر زندگی چھوڑو بات آبرو کی ھے
پوچھ تیغ قاتل سے مقتلوں کے میلے میں
ھم نے کس کو ڈھونڈا ھے کس کی آرزو کی ھے
رات دور بیٹھی ھے اک ضعیف ماں بن کر
ھر جوان لاشے پر اک ردا لہو کی ھے
جس کو زرد کر ڈالا دھوپ کی سخاوت نے
شاید اس کلی نے بھی خواہش نمو کی ھے
اے نمازیو ٹھہرو دل کو زخم سہنے دو
کچھ لہو تو بہنے دو یہ گھڑی وضو کی ھے
جس کو عمر بھر پوجا اب اسے گنوا بیٹھے
ہم نے یہ بغاوت بھی اس کے روبرو کی ھے
اپنا جرم ثابت ھے تم سزا سنا دینا
سر کہیں سجا دینا ہر سناں عدو کی ھے
دیکھنا کہیں"محسن"کچھ نشاں نہ پڑ جائے
عکس اس کے چہرے کا،موج آبجو کی ھے

No comments:

Post a Comment