کتنے اچھے دن ہوتے تھے
جب ہم خوشبو کے ساتھی تھے
کوئی ہماری آنکھوں پر ہاتھوں کو رکھ کر
پوچھتا تھا
میں کون ہوں بوجھو؟
اور ہم جو خوشبو کے ساتھی تھے کہہ دیتے تھے
"تم خوشبو ہو"
خوشبو یکدم ہنس دیتی تھی
کتنے اچھے دن ہوتے تھے
کتنے اچھے دن تھے جب خوشبو کو اپنے ساتھ لیے
جگنو کا پیچھا کرتے تھے
دن رات مہکتے رہتے تھے
کبھی خوشبو خود چھپ جاتی تھی
اور کبھی ہم اس سے چھپتے تھے
یوں آنکھ مچولی رہتی تھی
ہم اس کو ڈھونڈ کے خوش ہوتے تھے
وہ پا کے ہمیں خوش ہوتی تھی
کتنے اچھے دن ہوتے تھے
کتنے اچھے دن ہوتے تھے جب خوشبو ہم سے پوچھتی تھی
"ہم بچھڑ گئے تو کیا ہوگا؟"
ہم اس کو بس یہ کہتے تھے
"چپ ایسی بات نہیں کرتے"
اور خوشبو سوچ میں کھو جاتی تھی
کتنے اچھے دن ہوتے تھے
اور پھر اک دن ایسا آیا
آنکھ مچولی کھیلنے والی خوشبو کو ہم خود کھو بیٹھے
{خوشبو آخر خوشبو تھی ناں}
ہم جو خوشبو کے ساتھی تھے تنہا ٹھہرے
اب ہم گزرے دنوں کو اکثر
تنہائی میں سوچ کے بس یہ کہہ دیتے ہیں
"کتنے اچھے دن ہوتے تھے
جب ہم خوشبو کے ساتھی تھے"
No comments:
Post a Comment