Pages

Friday, 28 December 2012

کنارِ آب کھڑے اِک اُداس پیکر نے


دل و نگاہ میں قندِیل سی جلا دی ہے 
سوادِ شب نے مجھے روشنی دکھا دی ہے 

میں بارشوں میں نہاتا ہوں، دھوپ اوڑھتا ہوں 
مرا وجود کڑے موسموں کا عادی ہے 

اُسے کہو کہ ہواؤں سے دوستی کر لے 
وہ جس نے شمع سرِ رہگزر جلا دی ہے 

کنارِ آب کھڑے اِک اُداس پیکر نے 
ندی میں چُپکے سے اِک پنکھڑی بہا دی ہے 

فلک نے بھیج کے صحرا میں ابر کا ٹکڑا 
ہم اہلِ دشت کی تشنہ لبی بڑھا دی ہے 

قفس میں میرے سِوا جب کوئی نہیں عامر 
تو پھر یہ کس نے جواباً مجھے صدا دی ہے


No comments:

Post a Comment