اشک آنکھوں سے گر گیا ہے کہیں
بن کے دریا اتر گیا ہے کہیں
آنکھ پھڑکی جو بےسبب` تو لگا
وہ بھی مشکل میں گھِر گیا ہے کہیں
ہاتھ رکھا جو اس نے دل پہ مِرے
راگ ہولے سے چھِڑ گیا ہے کہیں
رات جذبوں نے لی جو انگڑائی
لمحہ لمحہ ، نکھر گیا ہے کہیں
اپنی قربت کے خواب دکھلا کے
زہر نس نس میں بھر گیا ہے کہیں
نوحہ گر ہے جو کل سے آنکھ میری
خواب رستے میں مر گیا ہے کہیں۔
No comments:
Post a Comment