Pages

Tuesday, 11 December 2012

نوحہ گر ہے جو کل سے آنکھ میری



اشک آنکھوں سے گر گیا ہے کہیں
بن کے دریا اتر گیا ہے کہیں

آنکھ پھڑکی جو بےسبب` تو لگا
وہ بھی مشکل میں گھِر گیا ہے کہیں

ہاتھ رکھا جو اس نے دل پہ مِرے
راگ ہولے سے چھِڑ گیا ہے کہیں

رات جذبوں نے لی جو انگڑائی
لمحہ لمحہ ، نکھر گیا ہے کہیں

اپنی قربت کے خواب دکھلا کے
زہر نس نس میں بھر گیا ہے کہیں

نوحہ گر ہے جو کل سے آنکھ میری
خواب رستے میں مر گیا ہے کہیں۔ 

No comments:

Post a Comment