Pages

Wednesday, 19 December 2012

کھو کر مجھے،یہ لڑکی کہیں دُکھ سے مر نہ جائے



خوشبو ہے وہ تو چُھو کے بدن کو گزر نہ جائے
جب تک مرے وجود کے اندر اُتر نہ جائے

خود پُھول نے بھی ہونٹ کیے اپنے نیم وا
چوری تمام رنگ کی ، تتلی کے سر نہ جائے

ایسا نہ ہو کہ لمس بدن کی سزا بنے
جی پُھول کا ، ہَوا کی محبت سے بھر نہ جائے

اس خوف سے وہ ساتھ نبھانے کے حق میں ہے
کھو کر مجھے،یہ لڑکی کہیں دُکھ سے مر نہ جائے

شدّت کی نفرتوں میں سدا جس نے سانس لی
شدّت کا پیار پا کے خلا میں بکھر نہ جائے

اُس وقت تک کناروں سے ندّی چڑھی رہے
جب تک سمندر کے بدن میں اُتر نہ جائے

پلکوں کو اُس کی ، اپنے دوپٹے سے پُونچھ دوں
کل کے سفر کی گردِ سفر نہ جائے

میں کس کے ہاتھ بھیجوں اُسے آج کی دُعا
قاصد‘ ہوا، ستارہ کوئی اُس کے گھر نہ جائے

No comments:

Post a Comment