Pages

Wednesday, 5 December 2012

تجھ سے بچھڑا ھوں تو مرجھا کے ہوا برد ھوا




دشت ہجراں میں کوئی سایہ نہ صدا تیرے بعد
کتنے تنہا ھیں تیرے آبلہ پا تیرے بعد

کوئی پیغام نہ دلدار نوا تیرے بعد
خاک اڑاتی ھوئی گزری ھے صبا تیرے بعد

لب پہ اک حرف طلب تھا،نہ رھا تیرے بعد
دل میں تاثیر کی خواہش نہ دعا تیرے بعد

عکس و آئینہ میں اب ربط ھو کیا تیرے بعد
ھم تو پھرتے ھیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد

دھوپ عارض کی نہ زلفوں کی گھٹا تیرے بعد
ہجر کی رت ھے کہ حبس کی فضا تیرے بعد

لیے پھرتی ھے سر کوئے جفا تیرے بعد
پرچم تار گریباں کو ھوا تیرے بعد

پیراہن اپنا سلامت نہ قبا تیرے بعد
بس وھی ھم وھی صحرا کی ردا تیرے بعد

نکہت و لے ھے تہہ دست قضا تیرے بعد
شاخ جاں پہ کوئی غنچہ نہ کھلا تیرے بعد

دل نہ مہتاب سے الجھا نہ جلا تیرے بعد
ایک جگنو تھا کہ چپ چاپ بجھا تیرے بعد

کون رنگوں کے بھنور،کیسی حنا تیرے بعد
اپنا خون اپنی ہتھیلی پہ سجا تیرے بعد

درد سینے میں ھوا نوحہ سرا تیرے بعد
دل کی دھڑکن ھے کہ ماتم کی صدا تیرے بعد

ایک ھم ھیں کہ ھیں بے برگ و نوا تیرے بعد
ورنہ آباد ھے سب خلق خدا تیرے بعد

ایک قیامت کی خراشیں تیرے چہرے پہ سجیں
اک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد

تجھ سے بچھڑا ھوں تو مرجھا کے ہوا برد ھوا
کون دیتا مجھے کھلنے کی دعا تیرے بعد

اے فلک ناز میری خاک نشانی تیری
میں نے مٹی پہ تیرا نام لکھا تیرے بعد

تو کہ سمٹا تو رگ جاں کی حدوں میں سمٹا
میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد

ملنے والے کئی مفہوم پہن کر آئے
کوئی چہرہ بھی نہ آنکھوں نے پڑھا تیرے بعد

بجھتے جاتے ھیں خدوخال،مناظر،آفاق
پھیلتا جاتا ھے خواہش کا خلا تیرے بعد

یہ الگ بات کہ افشا نہ ھوا تو ورنہ
میں نے کتنا تجھے محسوس کیا تیرے بعد

میری دکھتی ھوئی آنکھوں سے گواھی لینا
میں نے سوچا ھے تجھے اپنے سوا تیرے بعد

سہ لیا دل نے تیرے بعد ملامت کا عذاب
ورنہ چبھتی ھے رگ جاں میں ہوا تیرے بعد

جان"محسن"میرا حاصل یہی مبہم سطریں
شعر کہنے کا ہنر بھول گیا تیرے بعد

No comments:

Post a Comment