ہمارا یہ تم کو سلام آخری ہے
سنو آج تم سے کلام آخری ہے
اگر ہوسکے تو بھلا دینا ہم کو
یہ ایک چھوٹا سا کام آخری ہے
ابھی آرزؤں کے صحرا ہیں پیاسے
مگر آنسوؤں کا یہ جام آخری ہے
تیری بے وفائی کا شکوہ نہیں ہے
یہی تو وفاؤں کا انعام آخری ہے
مریضِ محبت کے اے چارا سازو
تمہارے شہر میں یہ شام آخری ہے
ذرا دیر ٹھہرو قضا کے فرشتو
لبوں پہ ہمارے پیام آخری ہے
کوئی مل سکے گا نہ حسرت کے جیسا
تیری اداؤں کا یہ غلام آخری ہے
No comments:
Post a Comment