Pages

Wednesday, 12 December 2012

ہمارا یہ تم کو سلام آخری ہے



ہمارا یہ تم کو سلام آخری ہے  
سنو آج تم سے کلام آخری ہے

اگر ہوسکے تو بھلا دینا ہم کو
یہ ایک چھوٹا سا کام آخری ہے

ابھی آرزؤں کے صحرا ہیں پیاسے 
مگر آنسوؤں کا یہ جام آخری ہے

تیری بے وفائی کا شکوہ نہیں ہے 
یہی تو وفاؤں کا انعام آخری ہے

مریضِ محبت کے اے چارا سازو
تمہارے شہر میں یہ شام آخری ہے

ذرا دیر ٹھہرو قضا کے فرشتو 
لبوں پہ ہمارے پیام آخری ہے

کوئی مل سکے گا نہ حسرت کے جیسا 
تیری اداؤں کا یہ غلام آخری ہے


No comments:

Post a Comment