خود وقت میرے ساتھ چلا وہ بھی تھک گیا
میں تیری جستجو میں بہت دُور تک گیا
کچھ اور اَبر چاند کے ماتھے پہ جھک گئے
کچھ اور تیرگی کا مقدر چمک گیا
کل جس کے قُرب سے تھی گریزاں میری حیات
آج اُس کے نام پر بھی میرا دِل دھڑک گیا
میں سوچتا ہُوں شہر کے پتھر سمیٹ کر
وہ کون تھا جو راہ کو پھولوں سے ڈھک گیا
دُشمن تھی اُس کی آنکھ جو میرے وجود کی
میں حرف بن کے اُس کی زباں پر اٹک گیا
اب کوئی سنگ پھینک کہ چمکے کوئی شرر
میں شہرِ آرزو میں اچانک بھٹک گیا
مت پوچھ فکرِ زیست کی غارت گری کا حال
احساس برف برف تھا لیکن بھڑک گیا
احباب جبرِ زیست کے زنداں میں قید تھے
"محسن" میں خود صلیبِ غزل پر لٹک گیا
No comments:
Post a Comment