Pages

Tuesday, 4 December 2012

ستمگر کے ستم کی انتہا دیکھتا رہا


میں عجیب زمانے کی وفا دیکھتا رہا
عمر بھر اپنے آپ کو تنہا دیکھتا رہا

کہیں نہ کہیں تو بدل ہی جاتے ہیں سلسلے
مگر میں جہاں بھی گیا صحرا دیکھتا رہا

جانے کیوں کتراتے ہیں لوگ مجھ سے ملنے سے
کل شب بھر میں آئینہ دیکھتا رہا

پانی مانگتے مانگتے میرے ہونٹ پتھر ہو گئے
وہ شخص مشکیزہ لئے کھڑا دیکھتا رہا

بے گناہ تھا پھر بھی سر جھکائے ہوئے
ستمگر کے ستم کی انتہا دیکھتا رہا

عمر بھر محبّت کا کچھ یوں سلسلہ رہا
میں اسے اور وہ دنیا دیکھتا رہا

کہوں گا خدا سے یوم ِحساب کو محسن
کہ زمانہ میری بربادی کا تماشا دیکھتا رہا


No comments:

Post a Comment