وہ ادھورے زیست کے لفظ تھے انھیں کیا لکھو گے یہ جان کر 
بڑی مختصر سی ہے داستان اسے کیا سنو گے یہ جان کر 


کچھ خواب تھے میرے ہم سفر کچھ خواہشوں کا ملال تھا 
میرے دل میں کس کا خیال تھا اب کیا کرو گے یہ جان کر 


وہ گلاب تیری یاد کے ان ہی راستوں میں بکھر گئے 
سر عکس مجھ کو خزاں میں پھر یونہی کب ملو گے یہ جان کر 


اک تیرے فرا ق کا زہر ہی میرے دل سے روح میں اتر گیا 
میں ٹوٹ کر ہوں بکھر گیا مجھے کیا چنو گے یہ جان کر 


تھی خاموشیوں کی وہ داستان جسے کہہ کے لب بھی ہلے نہیں 
جسے تم نے سن کے سنا نہیں پھر کیا کہو گے یہ جان کر 


تیری مسکراہٹ عزیز تھی کبھی کچھ بھی تم سےکہا نہیں 
میرا کس طرح کا نصیب ہے تم رو پڑ و گے یہ جان کر 


عقیل طویل تر ہیں شب و روز ان کے خیال میں 
مجھے منزلوں کی خبر نہیں تم کیا چلو گے یہ جان کر