گزر رہے ہیں جو مجھ پر عذاب اُس کے ہیں
کہ میری چشمِ تمنا میں خواب اُس کے ہیں
میں زخم زخم ہوں میرا نصیب ہیں کانٹے
وہ رنگ رنگ ہے سارے گلاب اُس کے ہیں
کتاب میری،قلم میرا،سوچ بھی میری
مگر جو لکھے میں نے وہ باب اُس کے ہیں
نہیں ہے مرے مقدر کا ایک بھی تارا
یہ کہکشاں یہ ماہ و آفتاب اُس کے ہیں
وصال و ہجر کا موسم اُسی کا موسم ہے
سوال میرے ہیں شاید جواب اُس کے ہیں
وہ میری ذات کا ایک مستند حوالہ ہے
کتابِ عشق کے سارے نصاب اُس کے ہیں
میں حیرتوں کے سمندر میں غرق ہوں اعجاز
تمام عکس سرِ سطحِ آب اُس کے ہیں
No comments:
Post a Comment