Pages

Saturday, 12 January 2013

اسے گنوا کر تلاش کرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے


اسے گنوا کر تلاش کرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 
سراب رستوں پہ ایسے چلنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 

گزشتہ لوگوں کا ذکر لے کر کہیں خیالوں میں لفظ چننا 
اداس لمحوں میں رنگ بھرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 

یہ آسرے کچھ بنا کے رکھنا ذرا ذرا سی رفاقتوں کے
گماں کی ڈ وری سے خواب بننا عجیب عادت بنا رکھی ہے 

کتابیں لکھنا محبتوں کی کسی کو لکھنا چھپا چھپا کے 
کوئی جو پوچھے تو پھر مکرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 

یہ کیا ہوا کہ بچھڑکے اس سے میں اب کہ خود سے خفا خفا ہوں 
کوئی بھی رت ہو اداس پھرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 

کسی کو پہلی ہی فرصتوں میں طویل چاہت کی آرزو تھی 
مگر کسی نے خفا سا ملنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 

شکستہ پتوں کے گھر بنانا مٹانا پیڑ وں سے نام جا کر 
گلاب پیروں تلے مسلنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 

میں اپنے حصّے کی روشنی ہوں نشان ہوں اپنی منزلوں کا 
یہ کون سمجھے کہ میں نے جلنا عجیب عادت بنا رکھی ہے 


No comments:

Post a Comment