ہم کو اپنا پتا نہیں ملتا
کیوں کہیں ہم خُدا نہیں ملتا؟
اے شبِ ہجر تیری عمر دراز
تجھ سا درد آشنا نہیں ملتا
دوستی تیری ساری دنیا سے
مجھ سے کیوں دل ترا نہیں ملتا؟
ہو گئے غم سے اس طرح مانوس
اب خوشی میں مزا نہیں ملتا
خود ہی کہتے ہیں خود ہی سنتے ہیں
جب کوئی دوسرا نہیں ملتا
عشق میں کیا رکھا ہے یہ مت پوچھ
دیکھ یہ اس میں کیا نہیں ملتا
کھو گیا اس طرح میں اپنے میں
ڈھونڈتا ہوں پتا نہیں ملتا
میکدوں میں جنابِ سرور سا
ایک بھی پارسا نہیں ملتا
No comments:
Post a Comment