Pages

Monday, 11 February 2013

یہ دل، یہ اُجڑی ہوئی چشمِ نم، یہ تنہائی



اسی سے ہوتا ہے ظاہر جو حال درد کا ہے
سبھی کو کوئی نہ کوئی وبال درد کا ہے
سحر سِسکتے ہوئے آسمان سے اُتری
تو دل نے جان لیا یہ بھی سال درد کا ہے
اب اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں رکھنا
یہ بات طے ہوئی لیکن سوال درد کا ہے
یہ دل، یہ اُجڑی ہوئی چشمِ نم، یہ تنہائی
ہمارے پاس تو جو بھی ہے مال درد کا ہے
یہ جھانک لیتی ہے دل سے جو دوسرے دل میں
میری نگاہ میں سارا کمال درد کا ہے
اسیر ہے میری شاخ نصیب پت جھڑ میں
میرے پرندۂ دل پر بھی جال درد کا ہے
بدل گئے میرے حالات دل تو کیا ہو گا
یہ ایسی بات ہے جس میں زوال درد کا ہے
دلوں پہ زندہ تھا دل ہی نہیں رہے ہیں یہاں
اب ایسے شہر میں جینا محال درد کا ہے
جمود توڑتی آنکھیں، سکوت توڑتے لب
یہ ناک نقشہ یہ سب خدّ و خال درد کا ہے
سُنا ہے تیرے نگر جا بسا ہے بیچارا
سُناؤ کیسا وہاں حال چال درد کا ہے
وگرنہ خار و خزاں کے سوا نہیں کچھ بھی
بس ایک پھول میری ڈال ڈال درد کا ہے
اُکھڑتی جاتی ہے دیوانہ وار ایڑیوں سے
زمینِ جاں پہ ہماری دھمال درد کا ہے
فقیر بیٹھے ہوئے ہیں بہت سکون سے ہم
تیری جدائی کی کُٹیا ہے پیال درد کا ہے
کہ ہم نے کس کے لیے جاں عذاب میں ڈالی
ہمیں تو آج بھی خود سے ملال درد کا ہے
ہمارے سینے میں دل کی جگہ پہ پتھر ہے
اِسی لیے تو یہاں ایسا کال درد کا ہے
تہاری چاہ نے ڈھونڈی تھی میری آبادی
یہ گھاؤ سینے کی بستی میں کھال درد کا ہے
یہ عشق ہے اِسے تیمار داریاں کیسی
اسے نہ پوچھ یہ بوڑھا نڈھال درد کا ہے
ہم اس کو دیکھتے جاتے ہیں، روتے جاتے ہیں
یہ صحنِ شب میں پڑا ہے جو تھال درد کا ہے
نہ تم میں سکھ کی کوئی بات ہے نہ مجھے میں ہے
تمہارا اور میرا ملنا وصال درد کا ہے
ابھی کہیں سے کڑی کوئی بھی نہیں ٹوٹی
ابھی تو سلسلہ سارا بحال درد کا ہے
میری طرف سے گزر کا خیال رہنے دو
یہ راستہ بھی بہت پائمال درد کا ہے
دل و نظر تو رہیں گے سکون میں لیکن
شب فراق مجھے احتمال درد کا ہے
کسی کا درد ہو اپنا سمجھنے لگتے ہیں
ہمارے پاس یہی کچھ مال درد کا ہے
یہیں کہیں میرے اندر کوئی تڑپتا ہے
یہیں کہیں پہ کوئی یرغمال درد کا ہے
اسی لیے تو ہمیں عجز کا قرینہ ہے
ہمارے ذات میں جاہ و جلال درد کا ہے
ہے مار رکھنے کے در پئے تیری مسیحائی
جو دوڑا ہے مَن میں غزال درد کا ہے
وہیں کہیں کسی گھاٹی میں تیرا ہجر بھی ہے
میرے لہُو سے جہاں اِتصال درد کا ہے
نفس نفس پہ پڑے آبلوں سے لگتا ہے
نہ جانے روح میں کب سے اُبال درد کا ہے
یہی تو فرق ہے ان میں اور آپ میں فرحت
کسی کو اپنا کسی کو خیال درد کا ہے
کسی نے پوچھا کہ فرحت بہت حسین ہو تم
تو مُسکرا کے کہا سب جمال درد کا ہے

No comments:

Post a Comment