Pages

Monday, 25 February 2013

ہجر کی کالی آندھی میں


دل کے سونے آنگن میں
خواہش کا پیڑ لگایا تھا
وہ پیڑ تمہارا میرا تھا
پر ہجر کے لمبے پت جھڑ میں
اُس پیڑ کے جتنے پتّے تھے
اُس پیڑ پہ جتنی شاخیں تھیں
وہ ساری شاخیں ٹوٹ گئیں
وہ سارے پتّے سوکھ گئے
بس ایک ہی ٹہنی باقی ہے
یہ ٹہنی یاد کی ٹہنی ہے
اور ایک ہی پتّہ زندہ ہے
یہ پتّہ آس کا پتّہ ہے
یہ آس کا پتّہ جانے کیوں
اِک آس لگائے بیٹھا ہے
کہ وصل کا ساون آئے گا
تو جتنے پتّے ٹوٹے ہیں
وہ سارے پھر سے نکلیں گے
اور دل کے سونے آنگن میں
پھر سے ہریالی آئے گی
پر وقت کا موسم کہتا ہے
کہ ہجر کی کالی آندھی میں
اِس پیڑ کا بچنا مشکل ہے
اب دل کے سونے آنگن کو
آباد نہیں تم کرسکتے
پر آس کا پتّہ کہتا ہے 
کہ دل کا سونا آنگن بھی
اِس پیڑ کے دم سے روشن ہے
یہ پیڑ ہی گر کٹ جائے گا
تو آنگن میں کیا رکھا ہے
دل کے سونے آنگن میں
اِک پیڑ لگا ہے خواہش کا
اُس پیڑ پہ یاد کی ٹہنی پر
ایک آس کا پتّہ زندہ ہے
نہ سوکھا ہے نہ سہما ہے۔


No comments:

Post a Comment