Pages

Wednesday, 27 February 2013

میںچھوٹی سی اک لڑکی بہت ہی بڑی ہوں


میںچھوٹی سی اک لڑکی بہت ہی بڑی ہوں 
کہ ہر جنگ اپنی اکیلی لڑی ہوں

بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے 
کہ صدیوں سے ساحل پہ تنہا کھڑی ہوں 

ہوا کے ورق پہ لکھی اک غزل تھی
خزاں آئی تو شاخ سے گر پڑی ہوں

ملی ہیں مجھے لحظ لحظ کی خبریں
کسی کی کلائی کی شاید گھڑی ہوں 

ہے لبریز دل انتظاروں سے میرا
میں کتبے کی صورت میں گلی میں گڑی ہوں

خلا سے مجھے آرہی ہیں صدائیں
مگر میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں 

میں اک گوشہ عافیت سے نکل کر
وہ پگلی ہوں دنیا سے پھر لڑ پڑی ہوں

وہ کرتا ہے نیناں میں بسنے کی باتیں
مگر میں تو اپنی ہی ضد میں پڑی ہوں ۔ 


No comments:

Post a Comment