Pages

Wednesday, 27 February 2013

سوائے اس کے اُن سے وقت رخصت اورکیا کہتے



چلو ظلمت کا یہ اندھا سفر آسان کر جائیں 
کسی کے کام آئیں اپنی آنکھیں دان کر جائیں

صحرا زندگی کا ھے یہاں سائے نہیں ملتے
بلا کی دھوپ ھے یادوں کی چھتری تان کر جائیں

مجھے جو جانتے ھیں ان کی حیرت اور بڑھ جائے 
نہیں جو جانتے ان کو بھی ھم حیران کر جائیں

بہت دن رہ لیے اس جسم میں اب یہ ارادہ ھے 
یہ گھر خالی کریں اس شہر کو ویران کر جائیں

ھم ایسے لوگ ھیں اپنی جدائی کے سمندر میں 
ھر اک ساحل کو لے ڈوبیں نگر ویران کر جائیں


سوائے اس کے اُن سے وقت رخصت اورکیا کہتے
ہمارے خواب لوٹا دیں یہی احسان کر جائیں

No comments:

Post a Comment