Pages

Tuesday, 19 February 2013

پھر سے انا گنوانے کی خواہش نہیں رہی


اب شہرِ جاں بچانے کی خواہش نہیں رہی
پھر سے انا گنوانے کی خواہش نہیں رہی

کتنے عجیب موڑ پہ بچھڑے ہیں اب کے ہم
اب تو کسی بہانے کی خواہش نہیں رہی

مٹھی سے اس طرح سے مقدر پھسل گیا
جھک کر اسے اٹھانے کی خواہش نہیں رہی

سورج کو بادلوں نے پناہوں میں جب لیا
پھر ان کو گھر لٹانے کی خواہش نہیں رہی

اب تم پلٹ کے آنے کی خواہش کو مار دو
اب تم کو آزمانے کی خواہش نہیں رہی

اب کے خدا سے بھی نہیں مانگا اسے بتول
اب سر کہیں جھکانے کی خواہش نہیں رہی

No comments:

Post a Comment