Pages

Wednesday, 6 February 2013

دیدہء تر نےبڑی دیر میں پہچانا اُسے


رات بیٹھا تھا میرے پاس خیالوں میں کوئی
انگلیاں پھیر رہا تھا میرے بالوں میں کوئی

دیدہء تر نےبڑی دیر میں پہچانا اُسے
روپ کھو بیٹھا ہے دو چار ہی سالوں‌ میں‌کوئی

غمزدہ شب کی گلوگیر ہوا کہتی ہے
یاد کرتا ہے مجھے چاہنے والوں‌میں کوئی

میں‌شبِ شہر میں‌تھا اور ادھر گاؤں میں
جلتی شمعیں لیے پھرتا رہا گالوں‌میں کوئی

ہم اندھیروں کے مکیں ان کو نظر آ نہ سکے
کس قدر محو رہا اپنے اجالوں میں کوئی

ہجر نے اتنا ستایا ہے کہ جی چاہتا ہے
کاش مل جائے تیرے چاہنے والوں میں کوئی


No comments:

Post a Comment