Pages

Thursday, 21 February 2013

بس ایک چشمِ سیہ بخت ہے اور اک تیرا خواب


زوالِ شب ہے ستاروں کو گرد ہونا ہے
پسِ نگاہ ابھی ایک غم کو رونا ہے

اب اس کے بعد یہی کارِ عمر ہے کہ ہمیں
پلک پلک میں تیری یاد کو پرونا ہے

یہی کہ سلسلہِ نارسائی ختم نہ ہو
سو جس کو پا نہ سکے ہم، اُسی کو کھونا ہے

جو لفظ کھل نہ سکیں آئینے پہ، مٹی ہیں
جو بات دل پہ اثر کر سکے، وہ سونا ہے

تُو اس کو توڑنا چاہے تو توڑ سکتا ہے
کہ زندگی ترے ہاتھوں میں اک کھلونا ہے

بس ایک چشمِ سیہ بخت ہے اور اک تیرا خواب
یہ خواب، خواب نہیں، اوڑھنا بچھونا ہے

سفر ہے دشت کا اور سر پہ رختِ تنہائی
یہ بار بھی اسی عمرِ رواں کو ڈھونا ہے

No comments:

Post a Comment