تیری زلفیں بکھرنے کو گھٹا کہہ دوں تو کیسا ہو
تیرے آنچل کے اڑنے کو صبا کہہ دوں تو کیسا ہو
بظاہر چپ ہو لیکن پھر بھی آنکھوں میں ہیں افسانے
تیری خاموشیوں کو بھی صدا کہہ دوں تو کیسا ہو
میرے شکوے شکایت پر بھی مجھ سے پیار کرتی ہو
تیری چاہت کو میں سب سے جدا کہہ دوں تو کیسا ہو
تیری یادیں میرے دل پر عجب سا شور کرتی ہیں
تیری یادوں کو گر میں اک نشہ کہہ دوں تو کیسا ہو
تمہارے بن مجھے جینا بڑا دشوار لگتا ہے
تمہیں میں اپنے جینے کی وجہ کہہ دوں تو کیسا ہو
جو تم ناراض نہ ہو تو مجھے اک بات کہنی ہے
اگر میں پیار سے تم کو وفا کہہ دوں تو کیسا
No comments:
Post a Comment