Pages

Tuesday, 26 March 2013

ربط توڑ آیا ہوں


ان کہے سوالوں کا
درد کیسے ہوتا ہے
تشنہ کام خواہشوں کی ٹیس کیسے اٹھتی ہے
بے زبان جذبوں کو جب سِرا نہیں ملتا۔
تشنگی سی رہتی ہے آسرا نہیں ملتا ۔
وہ بھی ان عذابوں سے کاش اس طرح گزرے
کاش اس کی آنکھوں میں خواب بے ثمر اتریں
کاش اس کی نیندوں میں رت جگے مسلسل ہوں
باوجود خواہش کے ایسے سب سوالوں کا
ربط توڑ آیا ہوں
آج اس کے ہونٹوں پر
لفظ چھوڑ آیا ہوں

No comments:

Post a Comment